وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو جمعرات کو لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے سے گرفتار کر لیا گیا۔ سفارت خانے نے انھیں سنہ 2012 سے پناہ دے رکھی تھی۔
امریکہ نے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے چیلسی میننگ کے ساتھ مل کر دفاعی ادارے کے کمپیوٹرز میں موجود خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کرنے کی سازش کی۔ اس جرم کی پاداش میں انھیں پانچ سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
سنہ 2006 میں اپنے باقاعدہ آغاز کے بعد سے اب تک وکی لیکس ہزاروں خفیہ دستاویزات شائع کر کے مشہور ہو چکا ہے۔ یہ خفیہ معلومات فلم انڈسٹری سے لے کر قومی سلامتی اور جنگوں سے متعلق رازوں پر مشتمل ہیں۔
ہیلی کاپٹر حملہ
سنہ 2010 میں وکی لیکس نے امریکہ کے ایک جنگی ہیلی کاپٹر سے بنائی گئی ویڈیو نشر کی جس میں عراق کے شہر بغداد میں شہریوں کو ہلاک کرتے ہوئے دیکھایا گیا تھا۔
اس ویڈیو میں ایک آواز سنی جا سکتی ہے جس میں پائلٹس کو اکسایا جا رہا ہے کہ ان سب کو مار دو اور اس کے بعد ہیلی کاپٹر سے گلیوں میں موجود شہریوں پر فائرنگ کی جاتی ہے۔
اس کے بعد جب ایک گاڑی جائے حادثہ سے زخمیوں کو اٹھانے کے لیے آتی ہے تو اس پر بھی فائرنگ کی جاتی ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز سے منسلک فوٹو گرافر نمیر نور الدین اور ان کے معاون سعید چماغ بھی اس حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی فوجی انٹیلیجینس
وکی لیکس نے ان ہزار ہا دستاویزات کو بھی شائع کیا جو سابقہ امریکی انٹیلیجینس تجزیہ کار چیلسی میننگ نے ان کو فراہم کیں۔
افغانستان میں جنگ سے متعلقہ دستاویزات کے ذریعے یہ راز فاش ہوا کہ کیسے امریکی فوج نے سیکڑوں شہریوں کو ہلاک کیا اور یہ واقعات رپورٹ نہ ہو پائے۔
عراق جنگ سے متعلق دستاویزات سے یہ پتا چلا کہ 66 ہزار شہریوں کو ہلاک کیا گیا۔ یہ تعداد اس سے کم ہے جو رپورٹ ہوئی تھی۔ دستاویزات سے ظاہر ہوا کہ عراقی فورسز نے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔
ان لیکس میں وہ دو لاکھ پچاس ہزار پیغامات بھی شامل تھے جو امریکی سفارت کاروں کی جانب سے بھیجے گئے تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ امریکہ اقوام متحدہ کے کلیدی عہدیداروں کے بائیو گرافک اور بائیو میٹرک معلومات جیسا کہ ڈی این اے اور فنگر پرنٹس حاصل کرنا چاہتا تھا۔
9/11 کے پیغامات
وکی لیکس نے تقریباً 573000 ریکارڈ کیے گئے وہ پیغامات بھی شائع کیے جو 9/11 میں شدت پسندوں کے امریکہ میں حملوں کے دوران بھیجے گئے۔
ان پیغامات میں وہ پیغامات بھی شامل تھے جو مختلف امریکی خاندانوں نے اپنے پیاروں سے رابطوں کے لیے اور حکومتی اداروں نے ایک دوسرے کو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیے تھے۔
ایک پیغام میں کہا گیا 'صدرِ مملکت کو اپنے روٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔ وہ واشنگٹن واپس نہیں آ رہے لیکن اس بات کا یقین نہیں کہ وہ کہاں جائیں گے۔'
ڈیموکریٹس کی ای میلز
وکی لیکس نے ہزاروں وہ ای میلز بھی شائع کیں جو سنہ 2016 میں سابق صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کی الیکشن مہم کے سربراہ جان پوڈیسٹا کے اکاؤنٹ سے ہیک کی گئی تھیں۔
ان ای میلز میں جان پوڈیسٹا ہیلری کلنٹن کے مخالف برنی سینڈرز کو پیرس میں ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے پر تنفید کرنے کی وجہ سے 'بیوقوف' کہتے ہوئے پائے گئے۔
ای میلز سے یہ بھی پتا چلا کہ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کا ایک صحافی کلنٹن کی ٹیم کو ایک سوال کے بارے میں بتا رہا ہے جو ان سے الیکشن ڈیبیٹ کے دوران اس نشریاتی ادارے نے پوچھنا تھا۔
ان ای میلز کے ایسے وقت میں سامنے آنے پر ویکی لیکس پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ ہیلری کلنٹن کو الیکشن سے قبل بدنام کرنا چاہتا ہے۔
وکی لیکس نے ریپبلیکن امیدوار سارہ پیلن کے یاہو اکاؤنٹ کی ای میلز کو بھی سنہ 2008 میں شائع کیا۔
برٹش نیشنل پارٹی کے ممبران
سنہ 2008 میں وکی لیکس نے برٹش نیشنل پارٹی کے 13 ہزار سے زائد ممبران کے نام، پتے، اور رابطے کی معلومات بھی شائع کیں۔
اس سیاسی جماعت کے منشور میں تجویز دی گئی تھی کہ مسلمان ممالک سے تارکین وطن کی امیگریشن پر پابندی عائد کی جائے اور برطانیہ کے باسیوں کو کہا جائے کہ وہ نسلی بنیادوں پر اپنے علاقوں میں واپس آ کر آباد ہوں۔
ایک سابق ممبر کو یہ راز فاش کرنے پر 200 برطانوی پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔
سونی پکچرز ہیک
سنہ 2015 میں وکی لیکس نے ایک لاکھ ستر ہزار ای میلز اور 20 ہزار وہ دستاویزات شائع کر دیں جو فلم سٹوڈیو سونی پکچرز سے چرائی گئیں تھیں۔
اس کمپنی کو شمالی کوریا پر بنائی گئی فلم دی انٹرویو کی ریلیز سے چند ہفتوں قبل سائبر حملے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ان ای میلز سے پتہ چلا کہ اداکاراؤں جینیفر لورینس اور ایمی ایڈمز کو فلم امریکن ہسل کے لیے اپنے ساتھی مرد اداکاروں سے کم معاوضہ دیا گیا۔
جب کہ وہ پیغامات بھی تھے جن میں اس کمپنی کے ہدایت کار اور اعلی عہدیداران مشہور فلمی شخصیات بشمول اینجلینا جولی کی بے عزتی کرتے پائے گئے۔
سونی پکچرز کی ایک فلم مسترد کرنے پر اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو کو 'کمینہ' کہا گیا۔
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کا کہنا ہے کہ یہ ای میلز عوامی مفاد میں جاری کی گئیں کیونکہ ان کے ذریعے ملٹی نیشنل کمپنی میں اندرونِ خانہ کام کرنے کے طریقہ کار کا پتا چلتا ہے۔
_________
بشکریہ: بی بی سی اُردو