آلیور ٹویسٹ ناول


آلیور ٹویسٹ ناول جس زمانے میں لکھا گیا، اس وقت کا انگلستان دنیا کا سب سے بڑا چائلڈ لیبر کا مرکز تھا جہاں روزانہ معصوم بچے مشینوں کے پٹوں میں آ کر یا گرم گرم چمنیاں صاف کرتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔ جمہوریت بھی تھی، پارلیمینٹ بھی تھی لیکن کوئی ایک آواز اسکے خلاف نہ اٹھ سکی۔ یہ تو بھلا ہو مزدوروں کی سوشلسٹ تحریک کا جس نے خوف زدہ کر کے تھوڑا بہت ان سے چھین لیا۔ چارلس ڈکنز کا بچپن بہت ہی مفلسی میں گزرا۔ اس نے بہت دھکے کھائے۔ کپڑے دھوئے۔ برتن مانجھے۔ گھر میں جھاڑو دی اور گالیاں کھائیں۔ اس لئے چارلس ڈکنز نے صرف پچیس سال کی عمر میں ''آلیور ٹویسٹ'' کردار تخلیق کرکے اپنے بچپن کا انتقام لیا۔

آلیور ٹویسٹ ناول کے آغاز سے ایک اقتباس 

آلیور ٹوئسٹ کی زندگی کا آغاز دکھوں سے ہوا۔ مسلسل کیے سالوں تک اس نے دکھ اٹھائے۔ ١٨٣٧ء میں آلیور ٹوئسٹ ایک یتیم خانے میں جاڑوں کی ایک رات میں پیدا ہوا۔ اس کی ماں اسی رات مر گئی۔
ڈاکٹر نے کہا، "افسوس کتنی جوان اور خوب صورت ہے۔"
وہ بوڑھی عورت کی طرف بڑھا، جس نے اس کی مدد کی تھی۔ اس نے عورت سے پوچھا، "وہ کون تھی؟"
"کوئی نہیں جانتا۔ وہ ہمیں گلی میں ملی تھی اور ہم اس کو اٹھا کر یہاں لے آئے تھے۔"
ڈاکٹر نے اس کے پھٹے ہوئے جوتے دیکھ کر کہا، "شاید وہ بہت دور سے آئی ہے۔"
اس نے اس کا بیان مردہ ہاتھ اٹھا کر دیکھا اور کہا، "اس کی انگلی میں شادی کی کوئی انگوٹھی نہیں۔۔۔ آہ اچھا ۔۔۔۔" کہتا ہوا وہ جلدی سے چلا گیا۔
اس غریب چھوٹے لا وارث بچے کا نام آلیور ٹوئسٹ رکھا گیا۔ انہوں نے اسے دوسرے لا وارث بچوں کے ساتھ یتیم خانے میں ڈال دیا۔ مسٹر بمبل جو یتیم خانے کا مالک تھا ان بچوں سے بہت برا برتاؤ کرتا تھا۔ نو سال کی عمر میں آلیور ٹوئسٹ دبلا پتلا کمزور لڑکا تھا۔ سب لڑکے دبلے پتلے اور کمزور تھے، کیوں کہ انہیں کام تو بہت کرنا پڑتا تھا لیکن کبھی انہیں پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تھا۔ وہ ہمیشہ بھوکے رہتے تھے۔ یہ سچ بات تھی کہ وہ دن میں کئی مرتبہ کھانا کھاتے تھے، لیکن ہر خوراک میں انہیں ایک پیالہ شوربا ملتا تھا۔ ہفتے میں دو دفعہ انہیںپیاز کی ایک گانٹھ دی جاتی تھی اور اتوار کے دن آدھا کیک۔ لڑکے اکثر بھوک سے بلبلا تے رہتے تھے۔ کبھی وہ اتنے بھوکے ہوتے تھے کہ انہیں بھوک کی وجہ سے نیند بھی نہیں آتی تھی۔
ایک لڑکا جو ان میں سب سے لمبا تھا اس نے کہا، "اگر مجھے ایک پیالہ شوربا اور نہیں ملا تو میں تم میں سے کسی ایک کو کھا لوں گا۔"
اس کی آنکھوں سے وحشت ٹپکتی تھی۔بھوک نے اس لڑکے کو پاگل بنا دیا تھا۔ اس کی بات کو سب چھوٹے لڑکے سچ سمجھتے تھے اور اس سے بہت زیادہ خوف زدہ تھے۔ غریب یتیم بچے کر بھی کیا سکتے تھے! وہ سوچتے تھے اور آپس میں باتیں کرتے تھے۔ پھر انہوں نے پلان بنایا کہ جب مالک شوربا دے رہا ہو تو ایک لڑکا اس کے پاس جائے اور اس سے زیادہ مانگے۔ یہ پلان سب کو پسند آیا، لیکن کون اتنا بہادر تھا جو زیادہ شوربا مانگتا؟
سب مسٹر بمبل سے ڈرتے تھے۔ سب اس سے مار کھائے ہوئے تھے۔ وہ اس کے بھاری ہاتھوں اور اس سے بھی بھاری چھڑی کو اچھی طرح جانتے تھے۔ کسی کی بھی اتنی ہمّت نہ تھی کہ اس سے زیادہ مانگتے۔ بہت دیر تک باتیں ہوئیں۔ آخر میں یہ فیصلہ ہوا کہ آلیور ٹوئسٹ آج شام کے کھانے پر زیادہ شوربا مانگے گا۔ جب شام کے خانے کا وقت آیا تو سب لڑکے پتھر کے ٹھنڈے ہال میں اپنی اپنی جگہوں پر چلے گئے۔ کمرے کے آخری سرے پر ماسٹر شوربے کا ایک بڑا برتن لئے کھڑا تھا۔ اس کے سیدھے ہاتھ میں ایک بڑا چمچا تھا۔ ہر لڑکا باری باری اپنا پیالہ لئے اس کے پاس آتا۔ ماسٹر اسے چمچا بھر کر شوربا دے دیتا۔ شوربا بہت جلدی ختم ہوگیا تو لڑکے اپنا پیالہ اور انگلیاں چاٹنے لگے۔ وہ ابھی بھوکے تھے اور ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ پھر کانا پھوسی کرنے لگے۔ آخر انہوں نے دھکّا دے کر آلیور ٹوئسٹ کو آگے بڑھایا۔ آلیور ٹوئسٹ اپنا پیالہ لے کر آہستہ آہستہ ماسٹر کے پاس گیا۔ پھر اس نے آہستہ سے سہمی ہی آواز میں کہا، "جناب، مہربانی کر کے مجھے تھوڑا شوربا اور دیجیے۔"
ماسٹر جو ایک تندرست اور موٹا اادمی تھا اچانک مڑا ور دھاڑا، "کیا۔"
آلیور ٹوئسٹ نے پتے کی طرح کانپتے ہوئے دوبارہ کہا، "مہربانی کر کے مجھ کو تھوڑا شوربا اور دیجیے۔"
مسٹر بمبل نے اپنے ہاتھ کا چمچا اس کے سر پر مارا، پھر آلیور کو پکڑ لیا اور اپنی مدد کے لئے چلانے لگا۔ اس کی آواز سن کر باورچی خانے میں کام کرنے والے لڑکے بھاگے ہوئے آئے۔ انہوں نے غریب آلیور کو پکڑ لیا اور اس وقت چھوڑا جب مارتے مارتے مسٹر بمبل کے ہاتھ دکھ گئے۔
آلیور ٹوئسٹ کو ایک اندھیرے کمرے میں بند کر دیا گیا۔ دوسری صوبہ یتیم خانے کے دروازے پر یہ نوٹس لگ گیا:
"جو شخص نو سال کے یتیم آلیور ٹوئسٹ کو ملازم رکھے گا اسے پانچ پونڈ انعام دیا جائے گا۔"
ایک ہفتے بعد یہ پیشکش قبول ہوئی۔ اس وقت تک آلیور ٹوئسٹ کو تاریک کمرے میں رکھا گیا۔ شام کو ایک گھنٹے کے لئے باہر نکال کر سب بچوں کے سامنے ٹھنڈے پتھر کے حال میں لا کر مارا جاتا تاکہ سب کو سبق حاصل ہو۔ آخر ایک اجر جس کا نام مسٹر سوربری تھا۔ یتیم خانے میں آیا۔ مسٹر سوربری تابوت بناتے تھے۔ انہیں اپنے کارخانے میں اپنی مدد کے لئے ایک لڑکے کی ضرورت تھی۔ آلیور ٹوئسٹ نے اپنی سب چیزیں رومال میں باندھ کر اپنی بغل میں دبا لیں اور یتیم خانے سے مسٹر سوربری کی دکان چلا گیا۔
مسٹر سوربری دبلے پتلے بد اخلاق آدمی تھے۔ ان کی بیوی بھی ایسی ہی تھی۔ وہ جتنے لمبے تھے وہ اتنی ہی پستا قد تھی۔ دونوں بےرحم اور ظالم تھے۔ انہوں نے پہلے ہی دن سے آلیور پر ظلم کرنا شروع کر دیا، کیوں کہ مسٹر بمبل نے آلیور کے خلاف ان کے کان اچھی طرح سے بھرے تھے۔ مسز سوربری آلیور پر کڑی نگاہ رکھتی تھی۔ اس نے مسٹر بمبل سے شکایت کرتے ہوئے کہا، "یہ بہت چھوٹا ہے۔"
"ہاں مگر یہ بڑا ہو جائے گا۔"
"ہاں مگر یہ ہماری روٹی کھا کر بڑا ہوگا۔ ان یتیم خانے کے بچوں کو جو ہمیشہ کھانے پینے کی فکر میں لگے رہتے ہیں، میں اچھی طرح جانتی ہوں، لیکن کیا وہ کام بھی کرتے ہیں؟" مسز سوربری نے آلیور کو دھکّا دے کر کہا، "ہڈیوں کی مالا، نیچے اترو۔"
زینہ اتر کر آلیور اندھیرے اور سیلے ہوئے کمرے میں پنچا جہاں ایک گندی میلی کچیلی سی لڑکی بیٹھی تھی۔ یہ شارلٹ سوربری تھی۔
"شارلٹ! گوشت کے ٹکڑے جو میں نے کتے کے لئے رکھوائے تھے، کہاں ہیں؟ وہ اس لڑکے کو دے دو۔"
شارلٹ نے گوشت کے ٹکڑوں سے بھری ہوئی ایک پلیٹ آلیور کے آگے کھسکا دی، جس کو دیکھ کر آلیور کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ بھوک کی وجہ سے وہ سب کھا گیا۔
مسز سوربری جو خوف زدہ نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی بولی، "اگر یہ اسی طرح کھاتا رہا تو ہم برباد ہو جائیں گے۔"
جب آلیور کھا چکا تو مسز سوربری اسے مدھم لیمپ کی روشنی میں زینے کے اوپر کارخانے میں لے گئیں اور کاؤنٹر کی طرف اشارہ کر کے آلیور سے کہا، "اس کے نیچے تمہارا بستر ہے۔ تم تابوتوں کے درمیان سوؤ گے۔ امید ہے کہ تم کچھ خیال نہیں کرو گے، کیوں کہ ہمارے پاس اور کوئی جگہ نہیں ہے۔"
یہ کہہ کر وہ آلیور کو تابوتوں کے درمیان اکیلا چھوڑ گئیں۔ غریب آلیور ڈر کی وجہ سے کپکپا رہا تھا۔ ان تابوتوں میں تو مردے ہوتے ہیں اور ان کے بھوت ہوتے ہیں۔ اس کے سونے کے بعد وہ کفن سے باہر آ جائیں گے۔ اس ڈر کی وجہ سے وہ بہت دیر تک جاگتا رہا۔
آخر صبح کے قریب بڑی مشکل سے آنکھ لگ گئی۔ کسی نے دکان کے دروازے پر لات ماری تو آلیور کی آنکھ کھل گئی۔ وہ دروازہ کھولنے کے لیے بھاگا۔ اس کے ہاتھ ٹھنڈے تھے۔ وہ آہستہ سے زنجیر کھول رہا تھا۔ غصے میں بھری آواز آئی، "جلدی کرو میں تمہارا انتظار نہیں کرسکتا۔"
"جناب میں آ رہا ہوں ایک منٹ۔"
"میرا خیال ہے کہ تم یتیم خانے کے لڑکے ہو۔"
"جی جناب۔"
"تمہاری عمر کیا ہے؟"
"دس سال۔"
"میں اندر آکر تمہیں ایک لات ماروں گا۔" بولنے والے نے سیٹی بجاتے ہوئے خوشی سے کہا۔
آخر آلیور دروازہ کھولنے میں کامیاب ہوگیا۔ باہر ایک بڑا اور موٹا لڑکا کھڑا تھا۔ آلیور نے یہ سوچ کر کہ شاید کوئی گاہگ ہے اس سے پوچھا، "جناب، کیا آپ کو تابوت کی ضرورت ہے؟"
"جب تمہیں ختم کر دوں گا تب مجھے تابوت کی ضرورت ہوگی۔ کیا تم جانتے ہو میں کون ہوں، اے حقیر لڑکے؟"موٹے لڑکے نے اپنا سوال کیا، پھر خود ہی جواب دیا، "میں نو آکلے پول ہوں۔ تم میرے ماتحت کام کرو گے اور میں دیکھوں گا کہ تم کیسے محنت نہیں کرو گے۔ کھڑکیاں کھولو حقیر لڑکے!"
اس نے آلیور کو ایک لات ماری اور زینے سے اتر کر باورچی خانے میں ناشتہ کرنے چلا گیا۔ آلیور بھی اس کے پیچھے چل دیا۔ شارلٹ نوآ پر بہت مہربان تھی، "آؤ آگ کے پاس بیٹھ جاؤ پیارے نوآ، تمہیں ناشتے میں اچھے گوشت کے نمکین سوکھے ٹکڑے دوں گی۔"
شارلٹ آلیور سے جلتی تھی۔ اس نے کمرے کے ٹھنڈے کونے میں ایک صندوق کی طرف اشارہ کر کے آلیور سے کہا، "جاؤ اس پر بیٹھ جاؤ۔"
"کیا سنا نہیں حقیر لڑکے؟" نوآ نے کہا۔
شارلٹ نے سوچا یہ ایک اچھا مذاق ہے۔ وہ دل کھول کر ہنسی۔ آلیور ٹھنڈ میں بیٹھا کھا رہا تھا اور وہ دونوں اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔
کافی مہینوں اور دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آلیور پر سب ظلم کرتے تھے۔ وہ خاموشی سے برداشت کرتا رہا۔ پھر ایک دن اس نے سب کو حیران کر دیا۔ وہ سوچتے تھے کہ وہ ان سے ڈرتا ہے اور تھا بھی ایسا ہی، لیکن ایک دن اس نے اپنے اندر ہمت پیدا کر کے دکھا دی۔
عشائیے کا وقت تھا۔ آلیور اور نوآکلے پول باورچی خانے میں بیٹھے کھانے کا انتظام کر رہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح نوآ کا مزاج خراب تھا۔ وہ آلیور کو غصہ دلانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔ اس نے اپنے پاؤں میز پر رکھ چھوڑے تھے۔ پھر اس نے آلیور کے بال نوچے، چٹکی لی اور لات ماری۔ وہ یہ سب اس لیے کر رہا تھا کہ آلیور روئے چلائے لیکن آلیور پھر بھی نہیں رویا۔ آخر اس نے آلیور سے پوچھا، "حقیر لڑکے، تمہاری ماں کیسی ہے؟"
"وہ مر چکی ہے۔ تم اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔"
"حقیر لڑکے، وہ کیسے مر گئی؟"
"اس کا دل ٹوٹ گیا تھا۔" آلیور نے اس سے کہا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
نوا ہنسا، "رونا بچّہ، رونا بچّہ، یہ اپنی ماں کے لیے رو رہا ہے۔"
"میری ماں کے بارے میں کچھ نہ کہو، تمہارے لیے اچھا ہے کہ خاموش۔۔۔۔"
"میرے لیے اچھا ہے۔ کیا میں خاموش رہوں! حقیر لڑکے! تم بہت گستاخ ہوتے جا رہے ہو۔ مجھے حیرت ہے کہ تم اتنی چھوٹی عمر میں کتنے بے ادب ہو۔ مجھے اپنی ماں کے بارے میں بتاؤ کیا وہ حقیقت میں ایک بری عورت۔۔۔۔"
آلیور نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا، "تم نے کیا کہا؟"
"میں نے یہ کہا کہ وہ حقیقت میں ایک بری عورت تھی۔ یہ اچھا ہوا کہ وہ مر گئی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کو سزا ملتی۔ یہ بات یقینی ہے کہ وہ۔۔۔۔"
آلیور نے اتنا موقع ہی نہ دیا کہ وہ آگے کچھ بولے۔ اس نے جھپٹ کر اس کا گلا دبوچ لیا اور اسے فرش پر پٹک دیا۔
نوا خوف سے چلّایا۔ "بچاؤ! بچاؤ شارلٹ!"
شارلٹ اور مسز سوربری بھاگ کر باورچی خانے میں آئیں۔ انہوں نے آلیور کو پکڑ کر مارا۔ نوآ نے بھی اٹھ کر ان کی مدد کی۔ آخر جب وہ مارتے مارتے تھک گئے تو اس کو کھینچ کر برا بھلا کہتے ہوئے بڑی مشکل سے ایک تاریک تہ خانے میں بند کر دیا۔
مسز سوربری ایک کرسی پر گر کر زار و قطار رونے لگی۔
شارلٹ چلائی، "وہ بے ہوش ہو رہی ہیں۔ نوآ جلدی سے ایک گلاس پانی لاؤ۔"
مسز سوربری ہوش میں آتے ہی چلائی، "شارلٹ! شارلٹ! وہ ہم سب کو سوتے میں ضرور مار ڈالے گا۔"
شارلٹ نے کہا، "غریب نوآ بےچارا تو مر چکا ہوتا، اگر ہم یہاں نہ ہوتے۔"
"بے چارا نوآ۔" مسز سوربری نے اس کی طرف ہمدردی سے دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر پوچھا، "اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ مسٹر سوربری ابھی گھنٹوں واپس نہیں آئیں گے۔"
آلیور نے ایک منٹ میں دروازے پر لاتیں مارنی شروع کردیں۔ "اس کا مطلب ہے وہ ہم سب کو مار ڈالے گا۔ میں جانتی ہوں وہ ایسا ہی کرے گا۔ نوآ، بھاگ کر یتیم خانے جاؤ اور مسٹر بمبل کو بلا کر لاؤ۔"
نوآ بھاگتا ہوا یتیم خانے پنچا ۔ اس نے سانس لئے بغیر کہا، "مسٹر بمبل! مسٹر بمبل! جناب! آلیور ٹوئسٹ پاگل ہوگیا ہے۔