سوشل میڈیا پر گزشتہ روز کا عورت مارچ زیرِ بحث ہے ـ بعض افراد کچھ سلوگنز پر اعتراض کررہے ہیں اور کچھ اسے مڈل کلاس خواتین کا فیشن قرار دے کر طنز کررہے ہیں ـ
کچھ سلوگنز سے واقعی اتفاق رکھنا مشکل ہے مگر سوال یہ ہے آخر عورت "قابلِ اعتراض" نعرے کیوں لگا رہی ہے؟ ـ اسے فیشن یا سستی شہرت کے حصول کا ذریعہ سمجھ کر طنز کرنے والے مرد ایک لمحے کے لئے ضرور سوچیں ـ
"کھانا میں گرم کردوں گی ــــ بستر خود گرم کرو" ـ یہ لاکھ "قابلِ اعتراض" نعرہ ہو مگر اس کے پیچھے چھپی اذیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ـ دن بھر کی تھکی ہاری عورت کو اٹھا کر کھانا گرم کرنے کا حکم دینے کے بعد لاٹ صاحب ریپ کرنے کو تیار ہوجاتا ہے ـ کیا اس دوہرے عذاب کا مشاہدہ ہر دوسرے گھر میں نہیں کیا جاتا؟ ـ عورت بھی چاہتی ہے کہ اس کا بستر گرم رہے مگر کیا واقعی مرد عورت کا بستر گرم رکھنے کا سوچتے ہیں؟ ـ سیدھا سا جواب ہے "نہیں" ـ مرد تو گالیوں میں بھی عورت کا ریپ کرتے رہتے ہیں ـ واضح رہے جنسی عمل دو طرفہ رضامندی سے ہوتا ہے جو یکطرفہ ہو وہ "ریپ" ہی ہوگا ـ "بستر خود گرم کرو" شادی کے مردانہ ادارے کو بنیاد بنا کر ریپ ہونے کے خلاف احتجاج ہے ـ
بات "موزہ ڈھونڈنے" کی نہیں ہے ـ وہ کہنا چاہتی ہے میں تمہاری آیا یا گارڈین نہیں بننا چاہتی ـ "ڈِک - ٹیٹر شپ" اگر نہیں ہے تو نر بچہ، مرد بچہ، مردانہ وار، مردانگی، مرد ہو تو سامنے آؤ وغیرہ وغیرہ اصطلاحات کا ماخذ و منبع کیا ہے؟ ـ
مجھے ایک بھی سلوگن ایسا نظر نہ آیا جو کسی مخصوص سماجی زیادتی کا فوری زنانہ ردعمل نہ ہو ـ ردعمل کی ماہیت و نوعیت پر نظری بحث کی جاسکتی ہے مگر فی الوقت یہ موضوع نہیں ہے ـ
مانتے ہیں محنت کش عورت کے بنیادی مسائل یہ نہیں ہیں جو شہری سول سوسائٹی اٹھا رہی ہے اور نہ ہی عورت کا مقابلہ مرد سے ہے ـ یہ نعرے سماج میں عورت بمقابلہ مرد ماحول پیدا کرکے مشترکہ جدوجہد کا راستہ روکنے کی کوشش ہیں ـ جاگیرداریت عورت کو ذاتی ملکیت سمجھ کر قید رکھنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ سرمایہ داریت اسے آزادی کا جھانسہ دے کر بیچتا ہے ـ پاکستانی شہری سول سوسائٹی اپنے مخصوص مزاج کے باعث امریکی و یورپی سرمایہ دارانہ سماج کی عورت بننا چاہتی ہے ـ لاکھ اختلاف رکھیں، بہرحال یہ تو طے ہے کہ وہ قدم بڑھا چکی ہیں ـ
دو راستے ہیں یا تو شہری سول سوسائٹی کی تحریک سے کیڑے نکال نکال کر کوسنے دیتے رہیں اور "ابا جی" بن کر انہیں حکم دیتے رہیں کہ جی ایسا ایسا کیجئے یا اس تحریک کے ساتھ خود کو جوڑ کر اس کی سمت درست کرنے کی کوشش کریں ـ
اولذکر کو "ڈِک -ٹیٹرشپ" مان کر سول سوسائٹی سنے گی ہی نہیں جبکہ موخرالذکر سے انہیں حوصلہ ملے گا اور وہ مارکسی فیمینزم کی جانب بتدریج متوجہ بھی ہوں گی ـ
زنانہ تشخص کو بری طرح کچلا گیا ہے اس لئے عورت کا ہر ردعمل طنز و اعتراض کا نہیں غور کا متقاضی ہے ـ