بابا۔۔۔۔۔۔!! - عبدالرحیم زامؔ - عتیق آسکوہ بلوچ





براہوئی ادب سے۔۔۔



بابا آدم کا احسان ہے کہ غلطی کے بعد بھی ہمیں وہ نام دیا کہ اب بھی ہم اشرف المخلوقات کہلائے جاتے ہیں۔

بابا نوح! آپ بھی ہمارے بابا ہے کہ ہمیں کفر کے طوفانوں سے نکال کر پھر سے زندگی کی کشتی بخشی۔


بابا گل محمد۔۔۔۔۔۔انہیں میرے اور ان کے علاوہ‘ جو ان سے سبزی خریدتے ہیں‘ کوئی نہیں جانتا ہے ۔۔۔۔۔۔گل محمد جن کی دونوں ٹانگیں ایک کار ایکسیڈنٹ میں کار آمد سے بے کار ہوئے، وہ ایک کوچ چلاتا تھا۔۔۔۔۔۔ کوئٹہ سے نوشکی آتے ہوئے گاڑی کے بریک فیل ہوگئے خود کو دروازے سے چھلانگ لگا کر بچانے کی بجائے اس نے دوسرے لوگوں کے بارے میں سوچتے ہوئے گاڑی کو آگے کی جانب سے ایک پہاڑ سے ٹکرایا، اسے معلوم تھا اس طرح اس کی جان بھی جاسکتی ہے لیکن بابا نے اپنے جان کی پرواہ نہیں کی ۔۔۔۔۔۔ جان تو بچ گئی اسی طرح دوسرے لوگ بھی صحیح سلامت رئے، لیکن بابا کی ٹانگیں ناکارہ ہوگئے اور اس کی وجہ سے اسے اپنے ڈرائیوری کے روزگار سے دستبردار ہونا پڑا۔۔۔۔۔۔ اور دوسری طرف کوچ مالک نے کوچ کے نقصان پر اس پر کیس کردی اور پھر تاوان طلب کی، اس طرح اس نے اپنے جتنا بھی جائیداد تھا بیچ دیا اور تاوان ادا کیا ۔۔۔۔۔۔ اور آج کل ایک ریڑھی پر سبزیاں بیچ رہا ہے۔



میں نے اپنے زندگی میں بہت سے بابا دیکھے ہے ۔۔۔۔۔۔ ایک بابا وہ ہے جو سیٹھ راجو کے دکان کے سامنے روڈ پر بیٹھا ایک ہاتھ پھیلائے لوگوں سے کچھ نہیں مانگتا بس لوگ اس کی حالت دیکھ کر اسے پیسے دیتے ہیں۔

لیکن میں آج تک بابا کی زندگی کو سہی مانوں میں سمجھ نہیں پایا۔ مجھے سب سے زیادہ حیرانی اس بابا پر ہوتی ہے جسے میں نے گیس پائپ لائن کے لئے کھدائی کرنے والوں کے ساتھ کام کرتے دیکھا تھا، لوگوں سے سنا تھا کہ نوشکی کے لئے گیس آنے والی ہیں (جو آج تک نہیں آئی پتہ نہیں شاید راستے میں کہی کھو گیا ہوگا)، تو وہ بہت خوش تھا مجھے یاد ہے کسی نے اس سے پوچھا بھی تھا؛ ’’بابا تم خوش ہو کہ گیس آنے والی ہے، کیوں تم بھی اپنے لئے گیس پائپ لائن لگانے والے ہو؟‘‘
بابا نے کہا؛’’ہم کہا لگائینگے، خدا نے ہمیں اتنی طاقت نہیں دی ہے۔ بس میرا روزگار اسی پائپ کے لئے کھدائی کرنا ہے، میرے لئے کچھ دن کی دہاڑی تو ہوگی۔‘‘


اسی طرح ایک دن میں صبح سویرے قبرستان گیا تو دیکھا وہی بابا۔۔۔۔۔۔ قبرستان کے بیچ میں ادھر اُدھر چکر لگا رہا ہے میں نہیں سمجھا، اتنی سردی میں وہ ادھر کر کیا رہا ہے۔۔۔۔۔۔!!

میں قبرستان کے بیچ بابا کے نزدیک گیا تو میں نے بابا کو قبروں کے لکڑیا جوکہ کہی سالوں سے قبروں پر لگے ہوئے تھے، ایک جگہ پر جمع کرتے دیکھا اسی طرح بہت سی لکڑیا تیز ہواؤں کے چلنے سے ٹوٹ گئے تھے بابا انہیں بھی اٹھا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ میں نے بابا سے کہا؛’’خیر ہے تم یہ کیا کررہے ہو؟‘‘
بابا لکڑیا جمع کرنے میں اتنا مصروف تھا کہ اسے میرے آنے کا پتہ ہی نہیں چلاتھا، میرے آواز کو اچانک سن کر وہ حیرانی سے ساکت کھڑا رہ گیا۔۔۔۔۔۔اپنے زبان پر زور ڈالتے ہوئے اس نے کہا؛’’بیٹے میں تو بس دعا مانگنے آیا تھا۔‘‘
میں سمجھ گیا کہ مجھے اس طرح اچانک دیکھ کر وہ مجھ سے ڈر رہا ہے۔ میں اس کی پریشانی دور کرنے کے لئے کہا؛’’ بابا۔۔۔۔۔۔کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔ اگر تم لکڑیا جمع کررہے ہو کروں ۔۔۔۔۔۔ یہ ویسے بھی کچھ عرصے کے بعد مٹی کے ہوجائے گے۔
بابا نے میرے باتیں سنی تو اسے تسلی ملی۔ اس نے کہا؛ ’’بیٹے کیا کروں غریبی کے ہاتھوں قبرستان کی لکڑیاں جمع کررہا ہوں پچھلی رات کی سردی سے بچے ابھی تک لرز رہے ہیں، اگر آگ نہیں جلائی تو وہ کسی بڑی بیماری کا شکار ہوجائینگے۔
میں نے بابا سے پوچھا؛’’تم گیس پائپ کرلئے کھدائی کرنے والوں کیساتھ کام کررہے تھے۔۔۔۔۔۔ انہوں نے تمہیں پیسے نہیں دیئے۔۔۔؟‘‘
بابا ایک قبر کے نزدیک بیٹھتے ہوئے کہا؛’’بیٹے انہوں نے مجھے دو دن کے بعد نکال دیا اور کہا کہ تم بوڑھے ہوگئے ہو یہ کام تمہارے بس میں نہیں مفت میں ایک کام کو ہمارے دو بناتے ہو۔ بیٹا کسی حد تک ان کی بھی بات صحیح ہے بس اس بڑھاپے کا کوئی علاج نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ بیٹا اگر تم بُرا نہ مانوں میں کچھ اور لکڑیاں جمع کروں؟‘‘
میں نے کہا؛’’جی بابا جمع کرو۔۔۔۔۔۔‘‘ اور میں نے بھی بابا کے ساتھ لکڑیاں جمع کرنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔ لیکن میں حیران تھا کہ میں کس بابا کے لئے لکڑیاں جمع کررہا ہوں۔۔۔!!
اُسی بابا آدم کے لئے۔۔۔۔۔۔ جسے اس جہاں کی خدائی نے اپنے ذات سے علیحدہ کیا کہ تم بوڑھے ہوگئے ہو ، اب تم ہمارے ساتھ ہم قدم نہیں رہ سکتے۔ یا بابا نوح کے لئے۔۔۔۔۔۔ جس کی کشتی نے آنے والی نسلوں کو بچایا تھا لیکن اب وہ کشتی پرانی ہوچکی ہے، اب وہ جلانے کے سواہ اور کوئی کام نہیں آسکتا۔۔۔۔۔۔ اس بوڑھے کشتی کو جلائے کہ شاید بچوں کے بدن کی سردی ختم ہوجائے۔