یہ 14 اگست،1971ء کی سرد ترین صبح تھی، جب ڈھاکا کے اکثر مکین خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔اچانک ڈھاکا یونیورسٹی کے اندر پھلر روڈ پہ ڈیزل انجن کی گڑگڑاہٹ نے گھمبیر خاموشی کو توڑ دیا۔
ایسٹ پاکستان روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی ایک منی بس اس روڈ پہ گارے میں پھنس کر رک گئی تھی۔صبح کے آٹھ بجکر پندرہ منٹ ہوئے تھے۔بس سے چھے یا سات افراد اترے اور وہ سب مسلح تھے۔انھوں نے فلیٹ نمبر 16 ایچ کی ڈور بیل بجائی۔
’کیا یہ سراج الحق خان کا گھر ہے؟‘ نرم آواز میں باہر کھڑے دو افراد میں سے ایک نے شستہ بنگلا زبان میں پوچھا۔دوسرے لوگ نیچے سیڑھیوں میں کھڑے ہوئے تھے۔
’ہاں!‘ سراج کے چھوٹے بھائی شمس الحق خان نے نروس ہوکر جواب دیا۔
’کیا وہ اندر ہیں؟‘ اگلا سوال کیا گیا۔
تھوڑی ہچکچکاہٹ کے بعد شمس نے جواب دا، ’وہ گراؤنڈ والے فلور پہ ۔۔۔ ڈاکٹر اسماعیل کے گھر میں ہیں۔‘
وہ گراؤنڈ فلور پہ گئے۔کچھ منٹوں میں، انہوں نے سراج کو فلیٹ سے نکالا اور آنکھوں پہ پٹی باندھ کر اومنی بس میں گھیسٹتے ہوئے لے چلے۔
سراج الحق خان ڈھاکا یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ میں اسٹنٹ پروفیسر تھے۔وہ کئی دوسرے روشن دماغ اور ممتاز شہریوں کی طرح پھر لوٹ کر نہیں آئے۔
ایسے بہت سے انٹلچوئلز کو اسی طرح سے لے جایا گیا، اذیت دی گئی اور بنگلا دیش کے قیام میں آنے سے چند روز پہلے مار دیا گیا۔
بنگلا دیش کی تاریخ لکھنے والے اکثر بنگالی و غیر بنگالی مورخین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جو لوگ بنگالی تحریک کی مخالفت کر رہے تھے اور اس وقت کی فوجی حکومت کے ساتھ تھے۔ان کو جب یہ احساس ہوا کہ وہ اس تحریک کو فتح یاب ہونے سے روک نہیں پا رہے تھے تو انہوں نے اساتذہ، ادیبوں، ڈاکٹروں، قانون دانوں، صحافیوں اور پروفیشنلز کے قتل کے فوجی حکومت کے منصوبے پہ عمل درآمد کر ڈالا۔
ناقدین کہتے ہیں کہ نسلی منافرت اور دشمنی میں اندھی فوجی آمریت بنگالیوں کے دماغوں کی نسل کشی کرکے بنگالی سماج کو سبق سکھانا چاہتی تھی۔
اس اندوہناک واقعے کو آج 47 سال گزرگئے ہیں۔
پاکستان میں مٹھی بھر دانشوروں، لکھاریوں، تاریخ کے سچے طالب علموں کو چھوڑ کر کسی کو بھی 14 دسمبر 1971ء کو ہوئے اس ہولناک واقعے کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔اور پاکستان میں ایسے طاقتور سیکشن موجود ہیں جو ’فراموشی کے سٹیٹس کو‘ کو یاد کرانے اور اس پہ معروضیت کے ساتھ بحث و مباحثہ کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہیں۔
انگریزی روزنامہ ’سٹار‘ ڈھاکا میں شائع ہوئے وسیم بن حبیب اور تاہین شبھرا کا مضمون ہمیں بتاتا ہے کہ 47 سال پہلے اپنے اسٹنٹ پروفیسر والد سراج الحق کو کھونے والے ان کے صاحبزادے انعام الحق کے لیے زخموں کی یاد اب بھی تازہ ہے۔
’میں سمجھتا ہوں قاتل کسی حد تک کامیاب رہے۔انہوں نے ہماری قومی زندگی میں ہر سطح پہ ایک خلا پیدا کر دیا تھا۔ہم اتنے سالوں بعد بھی اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
انعام الحق آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور انہوں نے اپنے والد کا جماعت اسلامی کے قائم کردہ مسلح جھتے ’البدر‘ کے ہاتھوں اپنے والد کا اغوا ہوتے دیکھا تھا۔
وہ آج کل کھلگاؤں میں رہتے ہیں اور جہانگیر نگر یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ میں استاد ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد بنگالی نیشنل ازم پہ یقین رکھنے والے ایک ترقی پسند انسان تھے۔
’ایجوکیشن ایڈمنسٹریشن میں ایک استاد ہونے کے ناطے وہ اس وقت کی پاکستانی حکومت کی امتیازی تعلیمی پالیسی کے خلاف بولا کرتے تھے۔حکمران ان کے اقدامات کو پاکستان کی قومی سلامتی و یک جہتی کے خلاف خطرہ سمجھتے تھے۔
انہی وجوہات کے سبب، میں سمجھتا ہوں، میرے والد پاکستان کی فوجی حکومت کی اشیر باد سے البدر(جماعت اسلامی) کا نشانہ بن گئے۔
میرے خیال میں باقی دانشوروں کے قتل عام کے پیچھے یہی وجوہات کارفرما تھیں۔‘
آج کے روز قریب قریب تمام بنگلا دیش سے شایع ہونے والے اخبارات میں 14 دسمبر کو ’یوم شہداء دانش‘ کے طور پہ یاد کیا گیا ہے۔
آج کے روز قریب قریب تمام بنگلا دیش سے شایع ہونے والے اخبارات میں 14 دسمبر کو ’یوم شہداء دانش‘ کے طور پہ یاد کیا گیا ہے۔
پروفیسر منیر چودھری، مظفر الحیدر چودھری، شاہد اللہ قیصر، سیلینا پروین، عبدل عالم چودھری اور بہت سارے دوسرے روشن دماغ اس روز اغوا کیے جانے کے بعد قتل کردیے گئے۔
ان لوگوں کا قصور فقط اتنا تھا کہ وہ بنگالی نیشنل ازم کے حامی تھے۔بنگالی قوم کے حقوق اور اختیارات کی مانگ کی تحریک کے ساتھ تھے اور ان کے حقوق کا استحصال کرنے والی مہاجر و پنجابی اشراف حکمران طبقات کے قبضے اور تسلط کو ٹھیک نہیں سمجھتے تھے۔
ان کا دوسرا بڑا جرم یہ تھا کہ یہ 1970ء میں ہوئے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی سیاسی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کی حمایت کر رہے تھے اور جس وقت اس زمانے کی فوجی حکومت نے اپنے ہی کرائے گئے انتخابات کے نتائج کے مطابق اقتدار شیخ مجیب کو منتقل نہیں کیا تو اس کے خلاف چلنے والی تحریک کے یہ نظریہ ساز خیال کیے جاتے تھے۔
اس زمانے کی فوجی آمریت کے ایجنٹ کے طور پہ کام کرنے والے مقامی ایجنٹوں نے بنگالی قوم پرست، کمیونسٹ، اسلامی سوشلسٹ اور سوشل ڈیموکریٹس دانشوروں کی فہرست فوجی آمر حکومت کو فراہم کی اور انہی فہرستوں کو البدر و الشمس کے حوالے کیا گیا اور انہوں نے ہی بڑے منظم طریقے سے ایسے بنگالی دانشوروں کا قتل عام کیا۔
پروفیسر انعام الحق جو جہانگیر آباد یونیورسٹی کے 2007ء تک وی سی بھی رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ البدر پہ اسلامی جمعیت طلبا کے بنگالی اسلام پسند ونگ کے پڑھے لکھے نوجوانوں پہ مشتمل عسکری جتھہ تھا اور یہ بنگالی قوم پرست اور بائیں بازو کے دانشوروں سے بخوبی واقف تھے۔
البدر اسلامی چھاترہ سنگھا/اسلامی جمعیت طلبا کے رہنماؤں اور کارکنوں پہ مشتمل تھی اور اسے جماعت اسلامی کا بھرپور تعاون حاصل تھا۔یہ بنگالی نیشنل ازم اور بائیں بازو کے نظریات کے خلاف پہلے دن سے مصروف تھی۔اس نے بنگالی قوم پرستوں اور کمیونسٹوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو جائز قرار دے ڈالا تھا۔
انعام الحق کو 14 دسمبر،1971ء کی وہ صبح آج بھی اچھے سے یاد ہے:
’میں نے اپنے والد کو اومنی بس کی طرف دھکیلے جاتے ایسی حالت میں دیکھا،ان کے ہاتھ ان کی پشت پہ بندھے ہوئے تھے اور ان کی آنکھوں پہ پٹی باندھی گئی تھی۔میں اس زمانے میں ڈھاکا یونیورسٹی میں فائنل ائر کا اسٹوڈنٹ تھا۔‘
ڈیلی سٹار ڈھاکا کے مطابق، اس صبح، ڈھاکا یونیورسٹی کے چھ استاتذہ اور ڈھاکا میڈیکل سنٹر کے فزیشن کو بھی اسی طرح سے کیمپس سے اٹھایا گیا تھا۔اٹھائے جانے والوں میں غیاث احمد، انور پاشا، رشید الحسن، فیض الماہی، ابواکبیر، سنتوش چندرا بھاٹیہ چاریہ اور محمد مرتضی شامل تھے۔
سراج کا خاندان اس سراج الحق کو تلاش نہیں کرسکا کیونکہ اس روز پورے ڈھاکا میں کرفیو لگا ہوا تھا اور ’شرپسندوں‘ کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات تھے۔
جیسے ہی 16 دسمبر کو پاکستانی افواج نے سرنڈر کیا، کرفیو بھی اٹحھ گیا۔انعام الحق، ان کے دوستوں اور پروفیسر کے ساتھیوں نے ایک گاڑی کرائے پہ لی اور اغوا ہونے والے دانشوروں کو تلاش کرنے لگے۔
’ ہم پہلے محمد پور فزیکل ٹریننگ کالج گئے اور پھر رئیربازار کلنگ فیلڈ میں اپنے والد اور دوسروں کو لاشوں کے درمیان تلاش کیا۔‘انعام الحق نے بتایا۔
’میں نے ہر جگہ ان کو ڈھونڈا۔شہر کی ہر اس جگہ گئے جہاں پہ اغوا ہوئے لوگوں کو رکھنے یا قتل کرنے کا امکان تھا۔میں فتح اللہ دریا پہ تیرتی لاشوں میں بھی اپنے والد کو تلاش کرتا رہا، لیکن میں ان کو کہیں نہ پاسکا۔‘
خاندان کی امیدیں دم توڑ رہی تھیں کہ این ایس آئی کے آفیشل، جو کہ انعام کے والد کے کلاس فیلو تھے، جنوری 1972ء میں ان کے گھر مفیض الدین کے ساتھ گئے۔مفیض الدین وہ شخص تھا جو البدر کی منی بس چلارہا تھا جس نے یونیورسٹی کیمپس سے دانشوروں کو اٹھایا تھا۔
تصویروں سے مفیض الدین نے اغوا کرکے لے جائے گئے افراد کو تلاش کرلیا۔ اس اغوا کے بعد کیا ہوا تھا۔ مفیض الدین نے انعام الحق کو بتایا:
’اغوا کار ان کو تولی کے نزدیک لوہار پل میر پور لے گئے جہاں ان کو گولی مار کر توراگ دریا میں ان کی لاشیں ٹھکانے کا ارادہ تھا۔ لیکن وہ ایسا اس لیے نہیں کرپائے کہ وہاں رضا کار دوسرے بہت سے ایجنٹ بنگالیوں کو مارنے کے لیے لے کر آگئے تھے۔ یو ٹرن لے کر انہوں نے مزار روڑ پہ سفر شروع کیا اور میرپور میں ایک قبرستان کے سامنے رک گئے۔
اغوا کاروں نے ان کو قبرستان میں چلایا اور دھان کے کھیت میں ان کو گولیاں مارکر ہلاک کردیا۔‘
مفیض الدین کی نشاندہی پہ اسی قبرستان سے آٹھ لاشوں کو برآمد کیا گیا۔
’میں نے اپنے والد کی لاش کی شناخت ان کے اٹالین گیبرڈائن ٹراؤزر اور بیلٹ سے کی۔ ان کی جیب میں شناختی کارڈ بھی تھا۔‘ انعام الحق نے بتایا کہ باقی لاشوں کو بھی ان کے عزیزوں نے شناخت کرلیا۔
جنرل یحییٰ کی فوجی حکومت اور اس کے مدد گاروں کے مظالم اور دانشوروں کے منظم قتل عام کا سراغ بنگلا دیش کے قائم ہوجانے کے بعد بتدریج ہوا۔
اس زمانے میں بنگالی اخبار ’دنیک پربادیش‘ سمیت کئی اخبارات نے اس قتل عام پہ رپورٹس شائع کیں اور پھر مبینہ قاتلوں کی تصاویر جن میں البدر کے کمانڈر چودھری معین اور اشراف الزماں بھی شامل تھے چھاپیں اور ان پہ کیپشن تھا:
’دانشوروں کے قاتلوں کو پکڑنے میں مدد کریں۔‘
میں نے پربادیش میں تصاویر دیکھیں اور دو اسمارٹ نوجوانوں کو پہچان لیا، جو میرے والد کو دسمبر اٹھانے آئے تھے۔وہ معین اور اشراف تھے۔‘، انعام الحق کہتے ہیں۔
البدر نے پروفیشنل لوگوں کا قتل دسمبر کے دوسرے ہفتے میں شروع کیا تھا۔تاہم مارے جانے والے دانشوروں کی کوئی خاص حکومتی لسٹ نہ بن سکی۔
بنگلا پیڈیا کے مطابق 1971ء میں 991 اساتذہ، 13 جرنلسٹس،49 فزیشن،42 لائرز اور 16 دوسرے لوگ قتل کیے گئے۔
یحییٰ خان کی فوجی آمریت نے بنگالی تحریک کو کچلنے کے لیے بنگالی دانشوروں، ادیبوں، وکلا اور دیگر کا قتل عام مارچ 1971ء میں آپریشن سرچ لائٹ کے نام شروع کیا تھا۔
اگرچہ مارے جانے والے دانشوروں کی تعداد حتمی طور پہ کبھی طے نہیں ہوسکی اور کئی ایک مورخین بنگالی لکھاریوں کی جانب سے بیان کی گئی تعداد کو مبالغہ آرائی قرار دیتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاتا کہ اس وقت کی فوجی حکومت نے اپنے مددگاروں کے ساتھ مل کر بنگالی دانشوروں کا اغوا اور قتل کیا تھا۔
اس واقعے کو 47 سال گزرجانے کے بعد آج کے پاکستان میں بنگالی تحریک کے بارے میں سرکاری بیانیہ ایسے واقعات کے انکار پہ مشتمل ہے۔
کچھ دن پہلے معروف صحافی نسیم زھرا کی ’کارگل جنگ‘ پہ ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں لیفٹنٹ جنرل(ر) طارق وسیم غازی نے چونکا دینے والا انکشاف کیا۔وہ 1999ء میں کارگل آپریشن کے وقت یواین کے امن مشن افواج کی قیادت کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپریل میں ان کو محسوس ہوا کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے۔ہر بار جب بھی ان کو واپس بلا کر بریف کیا گیا تو کچھ نہ کچھ چھپائے جانے کا احساس ہوا۔جب وہ پاکستان واپس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس حوالے سے کسی خاص بیانیے کو تقویت دینے کے لیے حقائق و واقعات کو اپنے مطابق ڈھالا جارہا تھا۔ان کے بقول وہ کبھی بھی کارگل آپریشن کی تزویراتی منطق سمجھ نہ پائے۔
جنرل غازی کا کہنا تھا کہ جب انہیں کوئٹہ کے کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں تعینات کیا گیا تو وہ کارگل بارے اسٹڈی میں بہت دلچسپی رکھتے تھے اور اس سے حاصل اسباق کو جاننے کے خواہش مند تھے۔
کالج میں ان کا ایک سٹاف ممبر تھا، جو کہ ان لوگوں کے انتہائی قریب تھا جنھوں نے یہ آپریشن پلان کیا تھا۔وہ جانتا تھا کہ سچائی کے بڑے حصّے کو چھپایا گیا تھا، جس کا جاننا بہت ضروری تھا۔
جنرل غازی نے بتایا کہ انہوں نے اس حوالے سے اسے بات کی اور ایک پریزینٹیشن کا انتظام کیا تو اس کے دو دن بعد انہیں ایک کال آئی اور ان کو خاص طور پہ بتایا گیا کہ وہ پریزنٹیشن کا خیال چھوڑ دیں۔
غازی نے کال کرنے والی اتھارٹی کو دلائل سے سمجھانے کی کوشش کی کہ اس میں پنہاں اسباق سے افسروں کو سیکھنے کی ضرورت ہے، لیکن ہر بار یہی کہا گیا، ’ایسا نہیں کیا جائے گا۔‘
جنرل غازی کا خیال ہے کہ ایک دن وہ خود اس کہانی کو بتائیں گے لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں ان کے پاس کتاب لکھنے کے درکار مہارت نہیں۔
ابھی چند دن گزرے جب آئی ایس پی آر کے ترجمان نے جنگ زدہ پشتون علاقوں سے ابھرنے والی پشتون تحفظ موومنٹ کو نام لے کر تنبیہ کی کہ وہ ’حد‘ عبور نہ کریں ورنہ مجبوراً انتہائی اقدام اٹھانا پڑے گا۔
پاکستانی مین سٹریم میڈیا کو بلوچستان، اندرون سندھ اور پشتون علاقوں میں بلوچ، سندھی اور پشتون قوم پرستی سے جڑے واقعات پہ سرکاری بیانیے سے ہٹ کر لکھنے کی ممانعت اب کھلا راز ہے۔
جب سرکاری بیانیے سے ہٹ کر ماضی کے واقعات پہ کسی اور بیانیے کو شائع کرنے کی اجازت آسانی سے نہیں ملتی تو حال کے واقعات پہ سرکاری موقف سے ہٹ کر لکھنا تو اور زیادہ مشکل ہے۔
محمد عامر حسینی
بشکریہ: سجاگ
بشکریہ: سجاگ