جب ایک خدا کو ماننے والا ایک خدا کو نہ ماننے والے کے عشق میں گرفتار ہو جائے تو ان کی محبت دو آتشہ ہو جاتی ہے۔ جب چارلز ڈارون کی ایماEMMA سے ملاقات ہوئی تو وہ ان کی زنف کے اسیر ہو گئے۔ پہلے ایما ان کی محبوبہ، پھر بیوی اور آخر میں ان کے دس بچوں کی ماں بنیں۔ ایما ایک راسخ العقیدہ عیسائی تھیں اور ڈارون ایک پکے دہریہ تھے۔ میں نے جب ڈارون کی خود نوشتہ سوانح عمری پڑھی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ڈارون کے نظریہِ ارتقا نے نہ صرف ان کا خدا کے ساتھ بلکہ اپنی بیوی کے ساتھ بھی ایک تضاد پیدا کر دیا تھا۔
ڈارون ایک سائنسدان تھے۔ وہ بچپن ہی سے چٹانوں، پرندوں اور جانوروں میں خاص دلچسپی رکھتے تھے۔ جب وہ جوان ہوئے تو انہیں اپنے ایک دوست کے ساتھ بیگل BEAGLE جہاز میں سمندروں اور جزیروں کے سفر کا موقع ملا۔ اس سفر کے دوران انہوں نے بہت سے پودے، چٹانیں اور فوسلز FOSSILS جمع کیے جن کا وہ اگلے بیس سال تک تجزیہ کرتے رہے۔ اسی تجزیے کی بنیاد پر انہوں نے اپنی معرکتہ الآرا کتاب THE ORIGIN OF SPECIES لکھی جس میں انہوں نے نظریہِ ارتقا کا سائنسی ثبوت مہیا کیا۔ اس تحقیق سے انہوں نے ثابت کیا کہ زندگی سمندر کی گہرائیوں میں پیدا ہوئی تھی، پھر وہ زمین پر آئی اور چاروں طرف پھیل گئی۔
جب ڈارون نے سائنسی تحقیق سے یہ ثابت کیا کہ انسان لاکھوں برس کے ارتقا کا نتیجہ ہے تو ان کے دور کے پادری بہت ناراض ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ بائبل نے ہمیں بتایا ہے کہ انسان کرہِ ارض پر صرف چند ہزار سال سے موجود ہے۔ عیسائی پادریوں نے سائنس سے لاعلمی کی وجہ سے نظریہ ارتقا کو رد کر دیا۔ چونکہ ڈارون ایک صلح جو انسان تھے اس لیے وہ پاردیوں سے نہ الجھے لیکن ان کے چند جذباتی دوستوں نے پادریوں سے اس موضوع پر بہت سے مباحثے اور مناظرے کیے۔
ڈارون منطقی سوچ رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم خدا کو منظق سے ثابت نہیں کر سکتے۔ ڈارون کا موقف تھا کہ خدا موجود نہیں ہے۔ ڈارون کی بیوی کو ان کا یہ موقف بالکل پسند نہ تھا کیونکہ وہ خدا کو مانتی اور پوجتی تھیں۔ وہ ایک عیسائی عورت تھیں اور خدا کے ساتھ ساتھ جنت اور دوزخ پر بھی ایمان رکھتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈارون دماغ سے سوچتے ہیں دل سے محسوس نہیں کرتے۔ ڈارون کی بیوی کو یہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ کہیں مرنے کے بعد اپنے اعتقادات کی وجہ سے ڈارون جہنم میں نہ چلے جائیں۔ ڈارون کو حیات بعد الموت کی کوئی فکر نہ تھی کیونکہ وہ اس پر ایمان نہ رکھتے تھے۔
ڈارون نے اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے اپنی سوانح عمری لکھی جس میں انہوں نے اپنی دہریت کا اعلان اور اعتراف کیا۔ اتفاق سے کتاب چھپنے سے پہلے ہی ڈارون فوت ہو گئے۔ ڈارون کی بیوی نے جب سوانح عمری پڑھی تو انہوں نے کتاب سے وہ اقتباسات نکال دیے جن میں ڈارون نے اپنے دہریہ ہونے کا ذکر کیا تھا۔
ڈارون کے بچے ایک دوراہے پر کھڑے تھے۔ ان کا باپ دہریہ تھا اور ماں عیسائی۔ وہ دونوں سے محبت کرتے تھے۔ وہ اپنی ماں کا دل نہ دکھانا چاہتے تھے اس لیے وہ عیسائی بن گئے۔ انہوں نے اپنی والدہ کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے ڈارون کی سوانح عمری سے دیریہ اقتباسات نکالنے میں اپنی والدہ کا ساتھ دیا۔ اس طرح ڈارون کی بیوی اور بچوں نے ان کا سچ چھپا دیا۔
ڈارون کے بچوں نے تو ان کی دہریت پر پردہ ڈال دیا لیکن ان کی پوتی نورا بارلو NORA BARLOW نے خاندان کا راز فاش کر دیا۔ انہوں نے ڈارون کی سوانح عمری کو دوبارہ 1858 میں چھاپا اور وہ تمام اقتباسات کتاب میں واپس ڈال دیے جو ان کی دادی نے نکالے تھے۔
THE AUTOBIOGRAPHY OF CHARLES DARWIN
1809—1882 BY NORA BARLOW WW NORTON AND COMPANY NEW YORK USA 1958
ڈارون نے اپنی سوانح میں لکھا ہے کہ انہیں جوانی ہی میں اندازہ ہو گیا تھا کہ بائبل دیومالائی کہانیوں کا مجموعہ اور اساطیر کا حصہ ہے، خدا کی کتاب نہیں ہے۔ ڈارون نے اعتراف کیا کہ انہیں اپنے الحاد پر کبھی افسوس یا پچھتاوا نہیں ہوا۔ انہیں اپنے الحاد میں ذہنی سکون ملتا تھا۔
ڈارون کا مذہب پر سب سے بڑا اعتراض جہنم کے تصور پر تھا۔ ان کی نگاہ میں یہ کہنا کہ کہ جو لوگ خدا اور مذہب کو نہیں مانتے وہ جہنم میں جلیں گے بہت ہی ظالمانہ تصور تھا۔ ڈارون کی بیوی ان سے کہتی تھیں کہ جو لوگ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں انہیں خدا معاف بھی کر دیتا ہے۔
ڈارون کی زندگی کا ایک دلچسپ پہلو یہ تھا کہ ان کی جوانی میں ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ بائبل کا مطالعہ کریں اور ایک پادری بنیں ۔انہیں کیا خبر تھی کہ ڈارون جوں جوں بائبل پڑھیں گے وہ خدا کے قریب آنے کی بجائے اس سے دور ہوتے جائیں گے۔ ڈارون نے خدا کو توخدا حافظ کہہ دیا لیکن اپنی بیوی کو خدا حافظ نہ کہہ سکے کیونکہ وہ ان سے محبت کرتے تھے۔ ڈارون کی بیوی نے ساری عمر بہت کوشش کی کہ ڈارون خدا پرایمان لےآئیں لیکن انہیں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ ڈارون کی بیوی کا مذہبی موقف تھا کہ انسان آسمانوں سے اترا ہے اور ڈارون کا سائنسی موقف تھا کہ انسان سمندر کی گہرائیوں سے ابھرا ہے۔
ڈارون کو اس بات کا ساری عمر دکھ رہا کہ ان کی بیوی ان کے اعتقادات اور نطریات کی وجہ سے دکھی رہتی ہیں۔ انہوں نے ایک خط میں انہیں لکھا کہ میرے مرنے کے بعد یہ نہ بھولنا کہ میں تمہاری محبت کی وجہ سے دکھی رہتا ہوں۔ ڈارون کی اپنی بیوی سے محبت آنسوئوں اور بوسوں کا حسیں لیکن تکلیف دہ متزاج تھی۔ ڈارون کی شادی کی کہانی ایسی محبت کی کہانی ہے جس میں برسوں کی رفاقت کے باوجود دماغ اور دل کبھی یکجا نہیں ہو پاتے۔ ڈارون اور ان کی بیوی دریا کے دو کناروں کی طرح زندگی گزارتے رہے۔ وہ رومانوی طور پر ایک دوسرے کے بہت قریب لیکن نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے بہت دور تھے۔ ان کا ساتھ دھوپ چھائوں کا ساتھ تھا۔
_________________________________________________________________________