افسانہ آئینہ - تحریر: رحیم زامؔ، ترجمہ: عتیق آسکوہ بلوچ

افسانہ - آئینہ

(براہوئی ادب سے)


تحریر: رحیم زام
ترجمہ: عتیق آسکوہ بلوچ


"عاطف یہاں اکیلے بیٹھے کیا کررہے ہوں؟”
"یار اسد بس آج مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں بہت غمگین ہوں، میرے سینے میں ٹھیسیں اٹھ رہی ہیں، یہ دنیا آج مجھے بڑھکتے لو کے مانند اپنے الاو سے تپاتے ہوئے لگ رہا ہے، آج میرا روح فریادی ہے، میرے جسم کو نوچ نوچ کر کہہ رہا ہے کہ مجھے اس زندان سے آزاد کردو، کچھ سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ کیا ہوگیا ہے مجھے.” میں نے اسد کو جواب دیتے ہوئے کہا.

پھر جب میں نے سر اٹھاکر اس کے طرف دیکھا تو مجھے اس کے ہاتھ میں ایک آئینہ نظر آیا. فوراً ایک سوال میرے ذہن میں امڈ آیا اور میں نے اسد سے دریافت کی: "سب ٹھیک تو ہے نا، کہاں سے آرہے ہو اور یہ آئینہ؟”
اسد نے خوش ہوتے ہوئے جواب دیا: "بازار سے.”
"بازار سے صرف ایک آئینہ خرید کر آئے ہو، پھر پسینے سے اتنا شرابور کیوں ہو دوست؟” میں نے پوچھا.
اس نے کہا: "بھائی میرا حال تم کیا سمجھو گے، یہ بازار نہیں تھا بلکہ آئینے کا میلہ تھا، ہر مرض کا شکار بندہ وہاں موجود تھا.”
آئینے کا میلہ…؟” میرے سمجھ میں بات نہیں آئی، میں نے پھر سے پوچھا: "ایسا کیسے ہو سکتا ہے، صرف آئینے کا میلہ”
"عاطف بھائی، میرا پسینہ خود میرے تھکاوٹ کا ثبوت دے رہا ہے، اگر سمجھنا چاہتے ہو تو خود جاؤ اُدھر دیکھ پاؤ گے.”
"کدھر ہے یہ بازار، وہاں جاکر شاید کچھ ہاتھ آئے؟”
"مشرقی پہاڑی کے قریب یہ میلہ لگا ہے.” اسد جواب دیتے ہوئے گھر کے لئے روانہ ہوگیا. میں نے آواز دیتے ہوئے اس سے پوچھا کہ "تم نے کونسا آئینہ اپنے لئے خریدا ہے؟”
اس نے دور سے آواز دیتے ہوئے کہا: "میرا مرض یہ ہے کہ بہت زیادہ بات کرتا ہوں، اسی لئے مجھے غریبی کے بابت سوچنے کا آئینہ دیا گیا، اس سے یہ مرض ختم ہوگا.”

میں اپنی بوجھل قدمیں مشرقی پہاڑی کی طرف بڑھانے لگانے اور خراماں خراماں اسی سمت سوچوں میں گم چلنے لگے اور جب پہاڑی کے قریب پہنچا تو وہاں سجا منظر اسد کے باتوں سے کئی گنا زیادہ بڑا تھا، یہاں تو روز محشر کے مانند مجمع لگا تھا. کسی کے ہاتھ میں نسوار کے ڈبیہ کے جسامت کا آئینہ تھا تو کسی کے پاس اس کے خود کے جسامت سے بڑا آئینہ تھا، وہ آدمی اس بڑے آئینے کو مجمع سے بچاتے ہوئے میرے نزدیک سے گزرا تو میں نے اس سے پوچھا: "یہ کس چیز کا آئینہ ہے؟” اس آدمی نے گھورتے ہوئے اپنے آنکھوں سے ہی مجھے ناپ تول کیا کہ یہ بندہ جواب سننے کا وزن رکھتا بھی ہے یا نہیں. کچھ دیر ٹکٹکی باندھے گھورنے کے بعد آخرکار اس نے جواب دیتے ہوئے کہا: "جناب میں تو دولتمند ہوں، میرا تو ہر فکر اور پریشانی میرا دولت ہے، بس یہ اسی غم سے مجھے نجات دیگا.”
"وہ کیسے؟” میں نے صاحب دولت سے حیرانگی سے دریافت کیا.
” میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ میں تمہیں سمجھاؤں، یہ آئینہ مجھے اس وجہ سے دیا گیا ہے کہ میں اس میں اپنے پورے وجود کو دیکھ پاؤں کہ میں کیا ہوں، میں کیا کررہا ہوں، پیروں سے لیکر بالوں تک میں اپنے آپ پر غور کروں پھر مجھے نجات مل سکے گی.”

جلدی میں اسے دیکھ کر، میں نے جناب کا زیادہ وقت نہیں لیا کیونکہ آئینہ بہت بڑا تھا اگر یہ گر پڑتا تو ایک اور پریشانی آن پڑتی، ویسے بھی کہتے ہیں کہ دولتمندوں کو جلدی دل کا دورہ پڑتا ہے.
میں چند قدم اور آگے بڑھا تو ایک آدمی نے بین ڈالے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا، اس کی حالت دیکھ کر اس سے کچھ پوچھا نہیں جاسکتا تھا، اسی وجہ سے میں نے اس کے نزدیک کھڑے ایک بزرگ سے پوچھا: "اس بندے کو کیا ہوا ہے؟”
"کچھ نہیں ہوا ہے بس جس آئینے کے لئے یہ آیا تھا، اسے کوئی اور لے گیا ہے اسی وجہ سے فریاد کر رہا ہے.”
"کس چیز کا آئینہ، کون لے گیا؟” میں نے پوچھا.
"اس بے چارے غریب کو اولاد کی پریشانی تھی، اسے آئینہ تو ہاتھ آگیا، لیکن اس آئینے کو ملّا لے گیا، جیسے کہ پہلے اس کے اولاد کو لے گیا تھا.”
"ملّا کو اس کے اولاد سے کیا کام، وہ کیا کریگا اس کا؟”
بزرگ نے ایک کڑوے مسکراہٹ کے ساتھ کہا: "جہاد فی سبیل اللہ۔۔۔”

اس سے آگے بات کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا. میں آگے چلتے جا رہا تھا کہ ایک نوجوان سے میرا سامنا ہوا جو کہ شوخ اداوں کے ساتھ چل رہا تھا، بالوں میں تیل لگا ہوا، ایک ہاتھ میں گلاب کا پھول تو دوسرے ہاتھ میں آئینہ اٹھائے ہوئے تھا. میں نے نوجوان سے مسکراتے ہوئے پوچھا: "خیر ہے، کیسی خوشی حاصل ہوئی ہے جو اتنے شوخ نظر آرہے ہو؟”
"سچ کہہ رہے ہو یا یونہی باتیں بنا رہے ہو؟” نوجوان نے جواب میں مجھ سے پوچھا.
"بلکل سچ کہہ رہا ہوں، وجہ کیا ہے یہ تو بتاؤ.” میں نے پھر سے پوچھا.
نوجوان نے خود کلامی میں کہا آئینے کا اثر ہورہا ہے، پھر مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: "بھائی میں ایک شاعر ہوں، میں نے بہت عرصہ شاعری کی، راست گوئی کے الفاظ پھیلائے لیکن مجھے کچھ حاصل نہیں ہوا. آج اس میلے میں آیا تو مشورہ دیا گیا کہ اس آئینے کو اٹھاؤ، اس سے تمہیں کامیابی ملے گی لیکن ہاں، تمہارا ضمیر تھوڑا زخمی ہوگا……. آپ بتائیے بھائی، ضمیر کے تھوڑا زخمی ہونے سے کیا ہوگا، تو بس میں نے اٹھا لیا یہ آئینہ.”
میں نے آئینے پر نظر ڈالا تو آئینے میں کوئی بھی خوبصورتی نظر نہیں آئی، پورے آئینے میں دراڑیں (تل تل؟) پڑیں تھیں، ایسا لگ رہا ہے جیسے زور زبردستی اسے خوبصورت بنانے کی کوشش کی گئی ہو. میں نے شاعر سے اس آئینے کی اس حالت کے بابت پوچھا تو شاعر یہ جواب دیتے ہوئے روانہ ہوگیا کہ: "دوست یہ جھوٹ کا آئینہ ہے، جھوٹ کی جتنی بھی پیوندکاری کرو، لیپا پوتی کرو، اسکی دراڑیں ختم نہیں ہوتیں اور وہ رہتا جھوٹ ہی ہے لیکن مجھے فائدہ دے رہا ہے، ضمیر تھورا زخمی ہوا تو کیا فرق پڑتا ہے.”

شاعر سے رخصتی کے بعد علاقے کے سردار سے میرا سامنا ہوا، باادب طریقے سے میں نے سردار سے پوچھا: "سردار صاحب آپ یہاں دکھائی دے رہے ہو، خیر ہے؟”
"بس نوجوان ہم بھی آئینے کے لئے آئے ہیں.” سردار نے جواب دیا.
"پھر صاحب کونسا آئینہ خریدوگے آپ.” میں نے پوچھا.
” ہمیں کس چیز کی پریشانی ہوگی، مال دولت دوسروں سے حاصل ہوجاتا ہے، جائیدار تو ویسے بھی میراث میں رکھا ہے اسے تو کوئی نہیں لے جاسکتا کیونکہ انہیں سنبھالنے کے لئے اولاد میرے پیچھے آرہے ہیں، کوئی انگلی اوپر اٹھائے تو اس کا سر سلامت نہیں رہے، بس پریشانی بے وقت دشمن کا ہے، جن کی نیت کب بدل جائے معلوم نہیں…” سردار خیالوں کی گہرائیوں میں جاتے ہوئے مخاطب رہا.
"تو اس کے لئے کوئی آئینہ ملا کہ نہیں؟”
"نہیں، کہہ رہے تھے کہ پہلے ہی کوئی اور اسے لے گیا ہے. انہوں نے کہا کہ اب تم اپنے دشمنوں کو اور بڑھا لو، ایک نہ ایک دن آئینہ خود تمہارے ہاتھ آجائے گا.”
"پھر وہ کس چیز کا آئینہ ہوگا، جو خود بہ خود آپ کے ہاتھ آئیگا سرداد صاحب؟” میں نے حیرانگی سے پوچھا.
سردار نے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا: "موت کا آئینہ، جسے میرا دشمن لے گیا ہے. اگر کسی دن ہم آمنے سامنے ہوئے تو یہ آئینہ اس کی قسمت کو بدل دیگا یا میرے زندگی کو مزید وسعت بخش دیگا.”

پھر کچھ آگے جاکر میں نے دیکھا کہ ایک آدمی بازار کے درمیان کھڑا آئینے کے ایک خالی فریم سے لوگوں کو دیکھ رہا تھا. وہ لوگوں کو کچھ لمحے دیکھنے کے بعد ایک صفحے پر کچھ لکھ رہا تھا. وہ بدحال دکھائی دے رہا تھا، کپڑے تار تار تھے، ایک تھیلہ گلے میں لٹکا ہوا تھا. میں اس کے قریب گیا کہ یہ پاگل کون ہے جو خالی فریم سے لوگوں کو یوں دیکھ رہا ہے.
"بھائی تم کون ہو اور اس خالی فریم سے کیا دیکھ رہے ہو؟”
"کیا کہہ رہے ہو، میرے پاس فارغ وقت نہیں ہے کہ تم سے بات کروں، مجھے جلدی سے لکھنا ہے… بہت زیادہ لکھنا ہے.” یہ اس آدمی کے الفاظ تھے.
"پھر بھی بھائی کچھ تو بتاؤ، اس طرح تو لوگ تمہیں پاگل سمجھیں گے.” میں نے دریافت کی.
"سمجھے، اس سے کیا ہوگا. یہ تو دنیا کا دستور ہے کہ اگر کوئی بات نہ کرے تو پاگل، بات کرے تو بھی باگل. تم بتاؤ بات کروں یا، نہیں نہیں… مجھے صرف لکھنا ہے، میں تو لوگوں میں سے نہیں ہوں.”
"یہ تو بتاؤ تم لکھ کیا رہے ہو؟”
” اچھی طرح سمجھتا ہوں، نوجوان تم مجھے ایسے لکھنے نہیں دوگے، بابا میں ایک ادیب ہوں، میں افسانے لکھتا ہوں. بس کیا کروں مجھے سچائی لکھنے کا شوق ہے. جھوٹ کا آئینہ دوسرا شاعر دوست یہاں سے لے گیا ہے، تو اسی وجہ سے میں نے اس سچائی کے آئینے کو حاصل کیا ہے، ہاں لوگوں کو یہ خالی فریم نظر آتا ہے لیکن میرے لئے یہی حقیقت بیان کرتا ہے. میں اس وقت یہی کر رہا ہوں، کہتے ہیں راست گوئی کے دن کم ہوتے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ میرے اس راست گوئی کا کب گلہ گھونٹ دیا جائے گا، اب مجھے اکیلے چھوڑو، مجھے لکھنا ہے، بہت زیادہ لکھنا ہے۔.”

بازار میں دیر تک گھومنے پھرنے سے میں تھک گیا، ایک جگہ بیٹھ گیا تو میرے حیرانگی میں ایک اور اضافہ ہوگیا، بہت دیر بعد مجھے اس بازار میں ایک عورت نظر آئی، جو نقاب ڈالے گھوم رہی تھی. میں جلدی سے اٹھا اور عورت کے پیچھے گیا. عورت نے مجھے دیکھا تو فوراً رُک گئی، میں اس سوچ میں پڑگیا کہ اس کے پاس جاؤں یا نہیں؟ کیا بھروسہ کہ ایک شور شرابہ برپا کردے، تو میرے لئے کیا عزت بچے گا لیکن دل کو سکون نہیں ملا، قریب جاکر اس سے عاجزی سے پوچھا: "محترمہ آپ اس مطلب کے بازار میں خیر سے گھوم رہی ہیں؟”
کیوں بھائی آئینے کی ضرورت صرف تمہیں ہے، ہم بھی سینے میں دل رکھتے ہیں، ہماری کچھ پریشانیاں ہیں.” عورت اپنے دل کا بھڑاس نکال کر بات کر رہی تھی کیونکہ شاید اسے پوری زندگی بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا. اب ایک موقع میسر ہوا تو دل کی بھڑاس نکال کر بات کرنے لگی. خیر میں نے پھر سے پوچھا:
"محترمہ آپ یہ بتائیے کہ آپ کس چیز کا آئینہ لئے گھوم رہی ہو؟”
"میں نے وفا کا آئینہ، اعتبار کا آئینہ، دوستی کا آئینہ، مجبوریوں اور دھوکہ بازیوں سے نجات کا آئینہ خریدی ہے.” محترمہ نے بے رخی سے جواب دیا.
"ان سب سے بھلا کیسے ایک آئینے سے نجات مل سکتی ہے، یہ سب تو ایک دوسرے سے دور ہے.” میں نے پھر سے پوچھا.
عورت نے جواب میں کہا: "میں پہلے لوگوں کی صورت دیکھا کرتی لیکن اب یہ سیرت دکھانے والا آئینہ مجھے مل گئی ہے، کسی کی سیرت کا پتہ چل جائے تو اس سے وفا، اعتبار اسی طرح دوسری جدائیوں کے درد سے نجات مل جاتی ہے.”
میں نے استفسار کیا: "آپ اپنے گھر میں موجود مظلوموں کے متعلق فکر کرنا کیسی بھول گئی، آپ اپنے تعلیم کے حق سے کیسے لاعلم ہوئے، آپ اُن سب کے علاوہ صرف اسی وفا کے لیئے بے چین ہو”
میں صرف زندہ ہونا نہیں چاہتی ہوں، میں تو زندگی کو اس کے مسرتوں کے ساتھ جینا چاہتی ہوں، جو ایک اچھی زندگی کیساتھ ہی ممکن ہوسکتی ہے. میری مظلومی کا نجات وہی ہے، میرے ہر بے چینی وہی دور کر سکتی ہے.” عورت نے بلا خوف جواب دیا.

اس عورت کی یہ باتیں میں سمجھنے سے قاصر تھا. اس بازار میں’ میں نے صرف خود کو بغیر آئینے کے خالی ہاتھ دیکھا، مجھے بھی آئینے کی ضرورت تھی. اپنے روح سے آذادی، اپنے نظر کے درد سے آذاد ہونے کے علاج کی ضرورت تھی جس میں دنیا شعلے کی مانند نظر آتی ہے.
میں بھی ایک دکان کی جانب بڑھا، دکاندار کو دیکھتے ہی میں بلکل ششدر رہ گیا کہ دکاندار ایک آنکھ والا آدمی تھا جو زبان سے بہت تیز تھا. جو آدمی اپنا مرض بیان کرتا، تو کچھ لمحیں گزرتے ہی وہ ایک آئینہ اس کے ہاتھ میں تھما دیتا تھا. اسی وقت ایک غریب وہاں آیا، آواز دیکر اس سے کہنے لگا: "میرے ساتھ ظلم ہورہا ہے، مجھے کوئی آئینہ دو.”
دکاندار نے آواز دی: "بات کر سکتے ہو ظالم سے؟”
غریب شخص نے اپنا سر جھکاتے ہوئے کہا: "نہیں”
"نہیں، تو پھر صبر کا آئینہ موجود نہیں ہے، اُس سے تمہارے زخموں کا علاج تو نہیں ہوتا لیکن وقت گذرنے کیساتھ پتھر دل بن جاتے.” دکاندار نے جواب دیا.
اسی میں ایک مولوی صاحب نے خود کو نزدیک کرتے کہا: "جناب! میرا عاجزی ختم ہوتا جارہا ہے، میرا بھی علاج کردو.”
"تم یہ آئینہ اٹھاؤ، اس میں تم سب کو ایک نظر سے دیکھو گے تمہارا عاجزی برقرار رہے گا.” دکاندار نے مولوی کو دیدہ (؟) کے برابر کا آئینہ دیتے ہوئے کہا.
دکاندار نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا: "نوجوان کس مرض کا شکار ہو تم، کیا چاہتے ہو؟”
میں سوچ میں پڑ گیا، پھر اس نے دریافت کیا: "روح کی آذادی چاہتا ہوں.”
دکاندار سمیت مجمع میں بہت سے لوگ میرے اس بات سے سیخ پا ہوگئے، ملّا کی چلانے کی آواز آئی جس کے ہاتھ میں مثلِ غریب کی اولاد والا آئینہ تھا، چلا چلا کر کہہ رہا تھا:
"کافر….. کافر……. کافر….”
سردار نے مجھے اپنے غضب ناک آنکھوں سے گھورتے ہوئے بولا:
"تم…. تم تو باغی ہو….مارو اس کافر کو، باغی کو.”

سب میری طرف بڑھنے لگے، اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے آئینوں سے میرے پورے بدن کو آئینے کی طرح چکنا چور کردیا، مجھے غصے میں اور کچھ سمجھ نہیں آیا، میں نے اپنے سینے میں اپنا ہاتھ ڈالا، میرے ہاتھ میں دل کی جگہ ایک پتھر آیا، میں نے آذادی کا نعرہ لگاتے ہوئے اس پتھر کو دکاندار کے دوسرے آنکھ پے دے مارا