الکیمسٹ برازیلی ادیب پاولو کوہلو کا وہ شاہکار ناول ہے ، جسے انہوں نے1988ء میں صرف دو ہی ہفتوں میں مکمل کیا لیکن جب یہ فن پارہ چھپا اور اس کا دنیا بھر کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوا تو اس نے فروخت کےنئے ریکارڈ قائم کیئے ، اس کی 43 ملین کاپیاں 155 ممالک میں فروخت ہوئیں اور اسے گینیز ورلڈ بک میں پرتگیزی زبان کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ناول تسلیم کیا گیا۔
میں نے الکیمسٹ کو جہاں بہت دلچسپی سے پڑھا ، وہاں پاولو کوہلو کی حالت زندگی کا بھی بغور مطالعہ کیا۔ یوں اس ناول کو پڑھنے کے بعد میرا یہ خیال ہے کہ اس ناول کی کہانی دراصل اس کے تخلیق کار کی اپنی کہانی ہے، اس کا مرکزی کردار سانتیاگو دراصل کوہلو ہی ہے اور سانتیا گو کے خواب کوہلو ہی کے خواب ہیں ۔
الکیمسٹ کو پڑہنے کے بعد اکثر نقادان ادب اس بات پر متفق ہیں کہ یہ خوابوں کی کتاب ہے۔ یوں یہ خواب صرف کوہلو ہی کے نہیں بلکہ ہم سب کے خواب ہیں اور چونکہ یہ کتاب ہمارے خوابوں سے متعلق ہے، اس لیئے یہ زیادہ پسند کی گی ¿ اور اسے زیادہ تعداد میں خریدا بھی گیا۔
پاؤلو کوہلو نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ خانہ بدوشی میں گزارا ، وہ زندگی بھرکسی بے چہن روح کی طرح رہے ، وہ بچپن ہی سے آزادی پسند تھے اور انہوں نے کبھی کوئی پابندی قبول نہیں کی۔ وہ 1947ء میں برازیل کے شہر ریو جی ڈینیرو میں پیدا ہوے، ان کا تعلق ایک متوسط خاندان سے تھا اور ان کے والدین انتہائی کٹر کیتھولک عیسائی تھے۔وہ چاہتے تھے کہ کوہلو بھی عیسائیت کی طرف راغب ہو لیکن کوہلو کو مذہب سے کوئی دلچسپی نہ تھی ، وہ تو بس اس بات پر بضد تھے کہ وہ ادیب بننا چاہتے ہیں۔ یوں جب ان کے سکول میں شاعری کا مقابلہ ہوا تو انہوں نے یہ مقابلہ جیتا۔ اب جب ان کے والدین نے یہ دیکھا کہ وہ اس ادبی زندگی کی طرف جار ہے ہیں ، جس کی برازیلی فوجی جنتا کے ہاں کوئی قدر نہیں تو انہوں نے ان پر پابندیاں لگائیں اور روز بروز ان میں اضافہ کرتے گئے، جس پر کوہلو سخت ذہنی دباؤ کے شکار ہوئے ، نتیجتاً انہیں ذہنی مریضوں کے سکول میں داخل کروانا پڑا، جہاں انہیں مسلسل بجلی کے سخت جھٹکے دیے گئے لیکن وہ پھر بھی راہ راست پر نہ آئے ۔ یوں یہ سلسلہ کافی عرصے تک چلتا رہا، پھر جب ایک سمجھدار ڈاکٹر نے ان کے والدین کو یہ مشورہ دیا کہ اس لڑکے کو کوئی پاگل پن درپیش نہیں ، آپ دونوں میاں بیوی کیوں اس بیچارے کی جان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، تو تب انہیں اپنے رویے میں تبدیلی کرنی پڑی۔
کوہلو نے اپنی جوانی کا تمام حصہ آوارہ گردی میں گزارا، وہ ہپی کی حیثیت سے مختلف ممالک کی خاک چھانتے رہے ، انہوں نے نشے کا استعمال کیا ، کالا جادو سیکھا اور اسے پیشے کے طور پر بھی اپنایا ، وہ صحافی بھی بنے، تھیٹر سے بھی منسلک رہے اور یوں ان کی یہ تمام زندگی مفلسی اور تنگ دستی کے عالم میں گزری۔ لیکن ان پر قسمت اس وقت مہربان ہو گئی ، جب انہوں نے برازیل کے راک گلوکاروں کے لئے نغمات لکھنے شروع کیئے اور یوں اس کے ذریعے انہوں نے پہلی بار دولت کمائی۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ ان نغمات کی وجہ سے انہوں نے برازیلی راک کو نئے رنگ بھی دیئے۔ اب یہاں ایک نئی بات یہ بھی سامنے آی ¿ کہ کوہلو اپنی تحریروں میں بھی آزادی پسند ٹھہرے اور یہ بھی کہ انہیں سرمایہ دارانہ نظام سے شدید نفرت ہے۔ یوں جب برازیل کی فوجی جنتا کو یہ علم ہوا کہ کوہلو اب حکومت کے خلاف زبان استعمال کرنے لگے ہیں تو خفیہ ایجنسیوں نے انہیں گرفتار کیا اور حکومت کے خفیہ عقوبت خانوں میں منتقل کرنے کے بعد وہ انہیں روز و شب سخت ترین اذیت اور تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ یوں کوہلو نے وہاں بالآخر خود کو زخمی کرنا شروع کیا اور اس طرح خود کو پاگل ظاہر کرکے اور اپنے پاگل پن کی پرانی ہسٹری بتا کر انہوں نے خفیہ ایجنسیوں سے جان چھڑائی۔ ۔
بہرحال ان تمام واقعات کے بعد جب کوہلو نثر اور بطور خاص ناول کی طرف آئے تو قسمت ان پر مہربان ہوئی۔ وہ دنیاے ادب کے بیسٹ سیلرز میں شمار ہوئے ۔ انہوں نے مختلف ناول لکھ ڈالے اور اس وقت ان کا شمار انتہائی دولت مند ادیبوں میں ہوتا ہے ، اب جہاں وہ شاہانہ قسم کی زندگی گزار رہے ہیں ، وہاں لکھنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے بہت سارے ملکوں کی سیر اور وہاں ان مملکتوں کی مہمان نازی سے لطف اندوز ہونا ان کا مشغلہ بھی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو کوہلو نے اچھی زندگی کے خواب دیکھے اور شاید ان خوابوں میں ایک خواب یہ بھی تھا کہ ایک نہ ایک دن انہیں ضرور کوئی خزانہ ملے گا اور بالآخر وہ خزانہ بہت زیادہ کامیابی ، دولت اور شہرت کی شکل میں انہیں ملا بھی ۔
کوہلو کے الکیمسٹ کا سانتیاگو اندلس کا ایک آوارہ گرد اٹھارہ سالہ چرواہا ہے ۔ وہ ، بھی اپنے خالق کی طرح ایک خواب دیکھتا ہے۔ یوں ایک بڑھیا اسے اس کے خواب کی تعبیر بتاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا اور تب ایک بوڑہا جو خود کو بادشاہ کے لقب سے پکارتا ہے ، اسے بتاتا ہے کہ اسے اس کا خزانہ کہاں ملے گا۔ یوں سانتیا گو جسے ماں باپ پادری بنانا چاہتے ہیں اور جو کوہلو کی طرح عیسائیت کی طرف راغب نہیں ہو رہا اور جو کتابوں کا شوقین ہے اور نئی دنیائیں دیکھنا چاہتا ہے، سپین سے افریقہ کے صحراو ¿ں میں پہنچتا ہے، جہاں اس کی منزل اہرام مصر ہوتی ہے کہ یہیں کہیں اس کا خزانہ دفن ہے۔ یوں وہ ایک قافلے کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑہتا ہے۔ راستے میں ایک کیمیا گر جس کی عمر دو سو سال ہوتی ہے ، اس کی مدد کرتا ہے ، لیکن سانتیا گو جب اہرام مصر پہنچتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ خزانہ تو یہاں نہیں، بلکہ وہ تو اس کے اپنے گھر اندلس میں تھا ۔ یوں وہ واپس اپنے وطن لوٹتا ہے اور خزانہ حاصل کرلیتا ہے۔
درحقیقت کوہلو ایک امید پرست ہیں اور مثبت سوچ کے مالک ہیں اور وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ اگر ہم کوشش کریں تو سب کچھ ممکن ہوسکتا ہے۔ یہاں کوہلو کا ایک ہی پیغام ہے کہ ہمیں اپنے دلوں سے ناکامی کا خوف ختم کرنا چایئے، کیونکہ یہی خوف ہمیں تباہی سے دو چار کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ہمارے من میں کوئی خواہش سر اٹھاتی ہے تو تمام کائنات اس سازش میں شریک ہوجاتی ہے کہ ہماری یہ خواہش پوری ہو ، اس حوالے سے جب ہم صحرا سے بات کریں گے تو اسے بھی زبان مل جائے گی اور وہ ہماری مدد کرے گا ، سورج بھی ہمارے ساتھ شریک گفتگو ہوجائے گا اور ہوائیں بھی ہماری مرضی کے مطابق چلیں گی ۔ بس شرط یہ ہے کہ ہمیں اپنے خوابوں سے پیار ہونا چایئے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہمیں رہنمائی نہ مل رہی ہو تو ہمیں علامتوں کی زبان سمجھنی ہوگی ، ان پر بھروسہ کرنا ہوگا اور اس طرح یہ علامتیں ہی ہمیں اپنے منزل تک پہنچائیں گی۔ یوں کوہلو کا یہ ناول رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں کی طرح حکمت اور دانائی کی ایک کتاب ہے جو ہمیں سخت اور مشکل حالات میں مایوسی سے دور رکھتی ہے اور یہاں ہر مقام پر ہمیں دانش کا ایک خزانہ ملتا ہے۔
کوہلو کہتے ہیں کہ میں اپنی تمام کتابوں میں زندگی سے متعلق اپنے ہی سوالات کے جوابات ڈھونڈتا ہوں۔ الکیمسٹ واقعی وہ کتاب ہے، جہاں ہمیں زندگی سے متعلق سوالات کے جوابات ایک ایسی زبان میں ملتے ہیں جو دراصل الفاظ کی بجائے موسیقی کی زبان ہے، انتہائی شیریں اور مترنم۔ بحض نقاد کہتے ہیں کہ الکیمسٹ میں کوہلو کی اپروچ سائنسی نہیں بلکہ وہ ہمیں توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کا درس دیتے ہیں۔ بعض کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ہمیں خودغرضی کی طرف لے جاتے ہیں اور وہ اجتماعی سوچ کی بات نہیں کرتے۔ میرا خیال ہے کہ یہ لغو اعتراضات ہیں کیونکہ جب تک ہم اپنے خوابوں اور خوفوں کو نہ سمجھیں تو زندگی کو سمجھنا اور زندگی میں کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں اور اس اولین قدم کے بعد ہی ہمارا اگلا قدم ہماری اجتماعی سوچ ہوسکتا ہے۔ الکیمسٹ میں صدیوں کی دانائی پوشیدہ ہے اور اس دانائی کا راوی اس ناول کا بوڑھا کیمیاگر ہے ، جو صحرا میں سانتیاگو کی رہنمای ¿ بھی کرتا ہے، اسے صحرا کی زبان بھی سکھاتا ہے اور اسے حکمت اور دانش کی وہ تمام باتیں بتاتا ہے، جو سینہ بہ سینہ اس کے ابا و اجداد سے اس تک منتقل ہوئی ہوتی ہیں۔ الکیمسٹ میں ہم سپین کی ثقافت کو بھی پاتے ہیں، انگریزوں کی ثقافت کو بھی اور عربوں کی ثقافت کو بھی ۔ یوں میرا خیال ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جو دنیا کی ثقافتوں کو یکجا کرکے تمام انسانیت کو ایک ہی ثقافت میں سموتی ہے اور جسے ہم محبت کی ثقافت کہہ سکتے ہیں۔ دراصل یہ ایک حکایت بھی ہے، ایک رزمیہ بھی، جہاں جنگوں کے درمیان ہماری امیدیں ہمارے ساتھ ہوتی ہیں۔ یوں یہ ایڈونچر کی ایک ایسی کتاب ہے جو ہمارے لئے دلچسپیوں سے بھری ہوی ¿ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں الکیمسٹ کو فلم، تھیٹر، رقص، پتلی گھروں اور اوپیرا کے ذریعہ پیش کیا گیا اور اسے ثقافتوں اور امیدوں کی شاندار الف لیلہ کہا گیا، ایک ایسی الف لیلہ جس میں ہم اپنے ہی ذات کو تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں اور ہمارا مضبوط ارادہ راستے کی مشکلات کو ختم کرتا ہوا ہمیں آگہی اور خود شناسی کی عظیم منزل پر لا کھڑا کرتا ہے۔